امنِ عالم سیرتِ نبوی صلى الله علیہ
وسلم کی روشنی میں
از:
محمد اسلم قاسمی ، استاذِ حدیث وقف
دارالعلوم دیوبند
امن وامان روئے زمین پر انسان کی
بنیادی ضرورت ہے۔ امن نہیں ہے تو نہ عالم انسانیت
کے ارتقاء کا عمل جاری رہ سکتا ہے نہ معاشرتی زندگی کی
بقاء۔ ہر انسانی تحقیق اور ترقی کا وجود امن وسلامتی
اور سکون سے ہے، اگر سکون ہی میسر نہیں تو فکری اور عملی
ترقی کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اسلام ایک متحرک دین ہے اس
لیے امن کا سب سے بڑا علم بردار ہے، چنانچہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ مغربی
نظریہ کے مطابق ”آزادی“ Summum Bonum یعنی ”خیرکثیر“ ہے جبکہ اسلام نے ”امن“ کو خیرکثیر
قرار دیا ہے۔
اسلام جو ایک آفاقی مذہب ہے اس
پہلو پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے کہ معاشرے میں امن وسکون رہے
تاکہ لوگوں کی سوچ متحرک ہو اور ترقی کے راستے سامنے آئیں۔
اسی لیے دین کی بنیاد اللہ سے جڑے رہنے اور تقویٰ
یعنی ایک پاکیزہ زندگی پر قائم ہے جو اسلام کی
پہلی سیڑھی ہے۔ اچھے اور بُرے لوگ ہر فرقہ میں ہوتے
ہیں مگر یہ دنیا کا قدرتی نظام ہے کہ ہر سوسائٹی میں
ہمیشہ اچھے افراد بہت زیادہ ہوتے ہیں اور بُرے افراد بہت تھوڑے
اس لیے کسی پورے کے پورے فرقہ کو ظالم اور غلط کار کہنا ایک
مُسلّمہ حقیقت کا انکار کرنے کی جاہلانہ جسارت کہلائے گا۔
ایمان،اسلام اور سلامِ مُلاقات کے
الفاظ میں امن وسلامتی کا ہونا ہی سب سے پہلے اس حقیقت کی
طرف اشارہ ہے کہ اس مذہب کے خمیر میں ہی ”امن وسلامتی“
شامل ہے کیونکہ یہی تینوں چیزیں ایک دین
کی ظاہری علامت ہوتی ہیں۔ چنانچہ آنحضرت کا ارشاد ایک
”مومن“ یعنی ایمان والے شخص کی مزاجی کیفیت
اور عمومی نفسیات کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن وہی ہوسکتا
ہے جس سے دوسرے لوگ اپنے جان ومال کو مامون و محفوظ جانیں“ حقیقت بھی
یہی ہے کہ ایک سچا مسلمان ہمیشہ تقویٰ کے
مقام پر رہتا ہے جس کے معنی ہیں خدا کا خوف، احتیاط اور برائیوں
سے بچنا۔ قرآن کریم میں تقویٰ یعنی پرہیزگاری
کا لفظ بطورِ نصیحت اتنا بارہا بار دہرایاگیا ہے کہ ایک
عامی شخص بھی اس سے بیگانہ نہیں۔ دنیا میں
جینے کا اصول ہی یہ ہے کہ آدمی انتہائی محتاط ہوکر
ہر قسم کی برائی، گناہ اور نزاع وجھگڑے سے اپنا دامن بچائے رکھے۔
یہی مُتَّقی آدمی کی پہچان ہے اور یہی
سب کے لیے امن وسلامتی کا راستہ ہے۔ تقویٰ کی
تعلیم سے قرآنِ پاک بھرا ہوا ہے۔ جناب پیغمبر خدا کا فرمان ہے
کہ ”سب سے اعلیٰ ایمان یہ ہے کہ تم یہ جانو کہ تم
جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے“ اب جو شخص یہ سمجھ رہا
ہے کہ وہ ہروقت اللہ کی نگرانی میں ہے تو وہ اپنے ہر عمل میں
انتہائی محتاط ہوجائے گا اور پھونک پھونک کر ہرقدم اٹھائے گا۔
انسانی زندگی کا احترام قرآنِ
کریم نے جس عجیب وموٴثر پیرائے میں بیان فرمایا
ہے اُس تک دنیا کا بڑے سے بڑا مُصلح اور اَمن کا علمبردار بھی نہیں
پہنچ سکا۔ ارشادِ قرآنی ہے کہ ”جو شخص کسی انسان کو بلاوجہ
مارڈالے تو یہ ایسا ہے جیسے اُس نے ساری دنیا کے
انسانوں کو قتل کرڈالا اور جو شخص کسی ایک انسان کی زندگی
بچالے تو گویا اُس نے سارے انسانوں کو بچالیا۔“ (مفہوم آیت)
اسلام میں جنگ کا تصور صرف دفاعی
ہے نہ کہ جارحانہ اور حملہ آور کے طورپر پھر اس جنگ کے اصول بھی خالص انسانی
اور رحم و ترحم کی بنیاد پر انتہائی سخت ہیں کہ جنگ میں
بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور مذہبی لوگوں اور دینی پیشواؤں
پر حملہ کرنے کی ممانعت ہے، پھر اسلام ایک تبلیغی مذہب ہے
اور اِبلاغ و تبلیغ کا کام امن وسکون چاہتا ہے اس لیے اسلام سب سے
پہلے اَمن وامان کا داعی اور مُدّعی ہے۔ حالتِ جنگ ایک
افراتفری کی حالت ہے جس میں کوئی تعمیری کام
اورآپسی میل جول یااتحاد و اتفاق اور دعوتی مشن ممکن نہیں۔
اسی لیے حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ ”دشمن سے ٹکراؤ
اور آمنا سامنا ہونے کی تمنا مت کرو بلکہ اللہ سے امن وعافیت مانگو“۔
جنگ اسلام میں ایک غیرمطلوب عمل ہے، بلکہ اصل جہاد خود اپنے جی
اور خواہشاتِ نفس سے لڑنا ہے کہ نفس آدمی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہی
غلط خواہشات کا سرچشمہ ہے۔ اسی لیے ایک دفاعی مُہم
سے واپسی پر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد یعنی
جنگ سے لوٹ کر بڑے جہاد کی طرف آئے ہیں، یعنی غلط خواہشات
سے لڑنے کی طرف لوٹے ہیں۔
اسلام نفرت کا نہیں پیار کا
مذہب ہے۔ آج کل اسلام دشمن جماعتیں اِس آیت کو سناکر اپنے بغض
وجہالت کا پرچار کرتی ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ ”غیرمسلموں کو
جہاں پاؤ قتل کردو“ حالانکہ یہ آیت صرف برسرِجنگ فریق کے متعلق
اتری ہے کیونکہ جو لوگ کسی کے خلاف برسرِجنگ ہوں تو یہ
اسلام ہی کا نہیں ساری دنیا کی قوموں کا اصول ہے کہ
انھیں قتل نہیں کیاگیا تو مقابل اس کو قتل کردیں گے۔
پھر یہ مخالفین اسلام اس آیت کو تو سامنے رکھتے ہیں لیکن
اِس دوسری آیت کو دانستہ نظر انداز کرتے ہیں جس میں ہے کہ
: ”اللہ تمہیں اُن لوگوں یعنی غیرمسلموں کے ساتھ احسان و
انصاف کا برتاؤ کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے معاملے پر نہیں
لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت
رکھتے ہیں۔ (سورئہ ممتحنہ، نمبرسورہ۶۰، آیت نمبر۸)
جنگ اسلام میں بدرجہٴ مجبوری
اور صرف دفاع کے لیے ہے۔ ہاں دشمن خود ہی چڑھ دوڑے تو اس کا
مقابلہ کرنا لازم ہے۔ جارحیت کا سامنا کرنے سے جی چُرانا بُزدلی
ہے جسے دنیا کا کوئی نظام اور کوئی ہوشمند انسان درست نہیں
کہہ سکتا۔ حضورِ اکرم صلى الله عليه وسلم کے دور میں جتنی بھی
جنگیں سامنے آئی ہیں ان کی تاریخ صرف اور صرف دفاعی
ہے۔ ان میں کوئی بھی جنگ اقدامی یا جنگ برائے
خونریزی نہیں۔ جب دیگر پیشوایانِ مذاہب
جنگ و خونریزی سے دور رہے تو وہ پیشوائے اسلام جس کو اللہ نے
رحمتِ مجسم بنایا اور ”رحمة للعالمین“ کے جیسا مُنفرد لقب عطا
فرمایا کیسے کسی کے لیے خلافِ رحم و مروّت بات کو سوچ
سکتا ہے! اسلام نے تولڑائی کو جنگ کا نام تک نہیں دیا بلکہ اُس
کو ”جہاد“ کے جیسا عنوان دیا جس کا مطلب ہے امن کی جدوجہد۔
وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اصل امن وامان ہے، جنگ و خونریزی
نہیں۔ اسلام ایک مُثبَت عمل ہے اور جنگ ایک منفی
عمل۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دومتقابل چیزیں
ایک جگہ جمع ہونے کا مطلب ہے کہ ایک ساتھ آگ اورپانی یا
اندھیرا اُجالا اکٹھے ہوجائیں۔
اسلام ایک نظامِ خداوندی ہے جو
سارے عالم کو اپنی تنویر سے منور کرنا چاہتا ہے۔ یہ اشاعت
و تبلیغ و ابلاغ سے ہی ممکن ہے۔ لہٰذا اسلام سے زیادہ
اَمنِ عالَم کا نقیب اور کون ہوسکتا ہے۔ حضور صلى الله عليه وسلم کا
فرمان ہے کہ ”تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا“ نیز
آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ”جو شخص حلال روزی کھائے، میری
سنت پر عمل کرے اور کسی بھی انسان کو اپنے عمل سے تکلیف نہ دے
وہ جنتی ہے۔“ پھر آپ نے بطوراُصول فرمایا کہ ”شریف آدمی
کی بدترین بات یہ ہے کہ وہ اپنی بھلائی سے آپ کو
محروم کردے اور بُرے آدمی کی سب سے بڑی اچھائی یہ
ہے کہ وہ اپنی ایذارسانیوں سے آپ کو محفوظ کردے“ پھر بھلائی
اور احسان کرنے میں حضور صلى الله عليه وسلم نے مُسلم وغیرمسلم کا کوئی
فرق نہیں کیا اور فرمایا ”اللہ اپنے بندے کا مددگار رہتا ہے جب
تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔“ ایک اور حدیث
میں ایک پُرامن مسلمان کے لیے یہ زبردست مژدہ سنایاگیا
کہ ”جو شخص عالم انسانیت کو اپنی ایذارسانیوں سے بچائے
رکھے گا تو اللہ پر اُس کا یہ حق ہوگا کہ اُس شخص کو قبر کے عذاب سے بچائے
رکھے“
امن کے مقابلے میں بدامنی ہو
تو ہر شخص دوسرے کو اپنا دشمن نظر آئے گا۔ ایسے میں حقیقتاً
دنیا ظالم اور مظلوم کے خانوں میں بٹ جاتی ہے جس سے پورا معاشرہ
فاسد ہوتا ہے، ارتقائی عمل رُک جاتا ہے اور بدامنی کا دور دورہ
ہوجاتاہے۔ اسی لیے اسلام اپنے ماننے والوں کو امن واَخوَّت اور
محبت کی تلقین کرتا ہے کہ پُرامن فضا میں اپنی فکری
اور تحقیقی قوتوں کو بروئے کارلاکر سارے عالم کے لیے نفع بخش بنیں
تاکہ خیر اُمت ہونے کی وجہ سے مسلمان امامِ اقوام کہلاسکیں اور
دنیا میں ملَّتِ اسلام سے فیض حاصل کرے۔ چنانچہ کہیں
پیغمبر صلى الله عليهوسلم نے فرمایاکہ ”بہترین انسان وہ ہے جس
سے عالم انسانیت کو نفع پہنچے“اور کہیں یوں فرمایا کہ
”اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ آدمی وہ ہے جس سے لوگوں کو (یعنی
بلاقیدِ مذہب وملت سارے عالمِ انسانیت کو) سب سے زیادہ نفع
پہنچے۔“
اللہ کی اس کائنات میں اُس کی
بنائی ہوئی بے جان مخلوقات اپنے کام سے کام رکھتی ہیں۔
کوئی چیز نہ دوسری چیز کا راستہ کاٹتی ہے نہ اُس کے
آڑے آکر اُس سے تصادُم کی راہ اختیار کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ
یہ ہے کہ زمین وآسمان ہوں یا چاند سورج اور سیّارے سب بغیر
تصادم اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور اس عالم کا نظام امن وسکون
سے چل رہا ہے یہاں تک کہ ہر چیز اپنی پوری پوری نفع
رسانی کے ساتھ عمل کررہی ہے۔ اب یہ کائنات اللہ نے انسان
کے لیے بنائی ہے جیساکہ حدیث میں ہے کہ ”یہ
دنیا تمہارے لیے بنائی گئی اور تم آخرت کے لیے“ پھر
اس کو سمجھ اور شعور دیاگیا تاکہ آدمی محتاط ومتقی بن کر
مومن کی طرح امن کی زندگی گذارے۔ مگر انسان جب اس نظامِ
کائنات سے ہٹ کر ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرتا ہے تو امنِ عالم میں رخنہ
پڑتا ہے اور دنیا گرفتارِ بلا ہوجاتی ہے۔
آج کا انسان اگر آنحضرت کے اس ارشاد کو ہی
مشعلِ راہ بنالے تو دنیا کی کایا پلٹ جائے۔ آپ سے اسلام و
تقویٰ کی حقیقت پوچھی گئی تو بیساختہ
ارشاد فرمایا کہ
”اللہ
کے حکم کی تعظیم اوراُس کی مخلوق کے ساتھ شفقت۔“
---------------------------
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 03 ، جلد: 93 ربيع الاول 1430 ھ مطابق مارچ 2009ء